ہمیں آج ایسے والدین سے مکالمہ کرنا ہے کہ بکھرے ہوئے گھرانے کے بچے جب عمر کے ایک خاص حصّے خصوصاً بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو دوسرے مطمئن گھرانوں اور والدین کی شفقتوں سے معمور خاندانوں سے اپنی محرومیوں کا موازنہ کر کے پریشان ہوتے ہیں۔
یہ آج کی بات نہیں، کہتے ہیںشادی ہمیشہ ہی سے جو اتھی ، ہوتا دراصل یہ ہے کہ میاں بیوی بھی وقت اور تجربے کے ساتھ ساتھ بدلتے اور ’بڑے‘ ہوتے ہیں۔ یہ صرف طلسماتی اور تصوراتی کہانیوں کا انجام ہوتا ہے کہ’’ پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔‘‘ بدلتی ہوئی زندگی، معاشی و تہذیبی ٹکراؤ ، ثقافتی و تعصباتی طرز فکر بھی شادی ٹوٹنے اور گھر کے بکھرنے کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شادی کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ اسکی کامیابی کی عمر کس قدر طویل ہو سکتی ہے۔ یہ کتنی پائیدار اور محبت بھری ہو گی یا چند برسو ںمیں طلاق کی شرح بڑھ گئی ہے۔ یہی وجہ کہ فیملی کورٹوں میں ہزاروں مقدمات ، بچوں کی سر پرستی اور عدالت سے متعلق فیصلوں کے منتظر ہیں۔ گھر کے بکھرنے اور خاندان کے منتشر ہو جانے کا مسئلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے ؟ جب آپس میں افہام و تفہیم کا رشتہ نہیں رہتا۔ عدم اعتماد، برداشت ،شخصیتوں، مزاجوں اور تربیت میں طبقاتی تفریق یہ سب ایسے مسائل ہیں جو ترقی یافتہ معاشرے میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔ شوہروں نے بیویوں اور بیویوں نے بھی شوہروں سے غیر ضروری توقعات اور خواہشات کی تکمیل کی ایک لمبی فہرست ترتیب دے رکھی ہے۔ دونوں اطراف کے والدین نے بھی مسائل کو سلجھانے میں ثالث کا کردار بخوبی انجام دینا چھوڑ دیا ہے۔ بزرگوں کے تعصباتی فیصلوں سے تعلق استوار کئے رکھنے کی کوئی صورت نہیں نکلتی ۔
اگر فریقین باہمی مفاہمت اور رواداری سے کام نہیں لیتے تو ضروری نہیں کہ وہ بچے کی ذمہ داری کا احساس بھی کریں۔ ایسے بہت سے خود غرض والدین موجود ہیں جو بچوں کی خاطر سمجھوتہ نہیں کرتے ۔ کچھ مرد لڑکوں کی سر پرستی اور تحویل پر زور دے کر لڑکیوں کو ماؤں کے ساتھ رہنے دیتے ہیں۔ کچھ اولاد سپرد کر کے اپنی جذباتی ضرورتوں کی تکمیل کرنے کیلئے الگ ہو جاتے ہیں اور فی زمانہ ایسی ماؤں کی بھی کمی نہیں جو شیر خوار بچوں کو چھوڑ کر نئی بیاہتا زندگی گزارنے لگتی ہیں۔ اس پورے منظر نامے میں بچوں کا متاثر ہونا فطر ی امر ہے ۔ بچے کو مجبوری سمجھنا یا اس کی تحویل کے لیے عدالت سے رجوع کرنا اس کی شخصیت کو مسخ کرتا ہے ۔ یہ شاید خود غرض افراد نہیں جانتے ، انہیں بچے کے ذہن میں ’بھر پور و مکمل خاندانی زندگی اور گھر پیارا گھر‘ کے تصور اور جنت اراضی کی حقیقت کا پتا ہی نہیں۔ وہ اپنے تلخ تجربوں اور بد اخلاقی کے مظاہروں سے اُس بت کو توڑ دیتے ہیں، جس کے بعد نہ تو لہجوں میں محبت کی چاشنی رہتی ہے ، نہ نگاہوں میں رشتوں کی عزت اور احترام ہی باقی رہتا ہے ۔ہمیں آج ایسے والدین سے مکالمہ کرنا ہے کہ بکھرے ہوئے گھرانے کے بچے جب عمر کے ایک خاص حصّے خصوصاً بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو دوسرے مطمئن گھرانوں اور والدین کی شفقتوں سے معمور خاندانوں سے اپنی محرومیوں کا موازنہ کر کے پریشان ہوتے ہیں۔ اُن کے ذہنی تفکرات کا اثر عمومی صحت پر پڑتا ہے ۔
معاشرے میں کئی گھرانے ایسے بھی موجود ہیں جنہیں خراب خانگی زندگی پر مشتمل کہا جا سکتا ہے۔ جہاں دن رات میاں بیوی اپنے اختلافات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ بد اخلاقیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیختے چلاتے ہیں۔ اپنی اناؤں کے ٹکراؤ اور اختلافات کا اظہار بچوں کے سامنے کرتے ہیں، تب بھی بچوں کی شخصیت مسخ ہوتی ہے اور محبت بھرے رشتوں سے اُن کا اعتبار اُٹھتا چلا جاتا ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیا ہم کبھی مل جل کر نہیں رہ سکتے ؟ یا کبھی ہم اچھی طرح بھی رہتے تھے۔ اگر ماں مد برنہ ہو اور وہ نباہ کرنا نہ چاہتی ہو تو ایسے گھرانوں میں بچے روتی ہوئی ماں اور چیختے چلاتے باپ سے ایک ہی سبق لیتے ہیں اور وہ ہوتا ہے بدتمیزی ، تشدد اور عدم مفاہمت کا ،کیا آپ ایسی بری خانگی زندگی کا تصور کر سکتے ہیں، جہاں رشتوں کا احترام کوئی معنی نہ رکھتا ہو۔ کیا آپ اپنی انا اور خود غرضی میں بچوں کو کھو دینا پسند کر سکتے ہیں ۔ ذرا سوچ لیں کہ مختصر سی زندگی میں کتنے نقصانات اور خسارے جھیلے جا سکتے ہیں۔
بچے معصوم ہوتے ہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں یہ فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ انہیں والدین میں سے کسی ایک کا انتخاب کن بنیادوں پر کرنا ہے ۔ وہ طلاق کی اہمیت جانتے ہیں، نہ انہیں مذہب اور معاشرے کے ضابطوں اور قوانین کا علم ہی ہوتا ہے ۔ وہ شروع شروع میں ہی تصور بھی نہیں کر پاتے کہ والدین الگ بھی رہ سکتے ہیں یا اُن کے سامنے بچوں کی حیثیت ثانوی بھی ہو سکتی ہے۔ بچوں کی شخصیت پر بکھرے ہوئے خاندان کے کبھی اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ یہ بات والدین کو سمجھ لینی چاہیے مثلاً اگر کسی بچی کو ایسے والدین سے سابقہ پڑ جائے تو اس کی جذباتی اور نفسیاتی دنیا میں تہلکہ مچے گا۔ وہ اندر اور باہر کہاں کہاں سے نہیں ٹوٹے گی؟ ایسی صورت میں کہ جب اسے حقیقی ماں یا باپ کے ساتھ ساتھ کسی سوتیلی ماں یا باپ کے ساتھ زندگی گزارنی
پڑے تو نئے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ناپسند کی جائے، اُسے قبول نہ کیا جائے۔ نئے خاندان میں اس کے رشتے استوار نہ ہو سکیں۔ بیٹا ہے تو اسے بھی ایسے مسائل سے نبٹنا پڑ سکتا ہے ۔ بچپن میں معصومانہ خواہشوں کی تکمیل نہ ہو تو بھی شخصیت کے پروان چڑھنے میں محرومیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ جس بچے کی شخصیت کی تعمیر میں توازن اور تربیت نہ ہو، اس میں انتقامی جذبے پنپنے لگتے ہیں، وہ ساتھیوں پر تشدد کر سکتا ہے ، زبانی بدکلامی کر سکتا ہے ۔ یہ معاندانہ رویے اس کی بکھری ہوئی شخصیت کو ظاہر کر تے ہیں۔ لیکن بہت سے سوالوں کا جواب اتنی کم عمری میں نہیں ملتا۔ والدین کو اپنی زندگیوں میں بچوں کے لیے اتنا وقت ضرور نکالنا چاہیے کہ وہ انہیں بہتر حال اور اچھا مستقبل دے سکیں اور صرف روپے پیسے سے ہی ان کی ضروریات نہ پوری کریں۔ انہیں جذباتی سہارا بھی دیں، مثلاً ایک بچہ باپ کی انگلی تھامے پہلے دن اسکول جانا یا سڑک پار کرنا اپنے لیے بہترین تفریح یا جذباتی ضرورت سمجھتا ہے ۔ اس سے اسے نفسیاتی تسکین اور خوشی ملتی ہے ۔ جو اسکی شخصیت کے خلا کو پُر کر دیتی ہے ۔ اسی طرح ماں کے ساتھ کوئی نہ کوئی جذباتی وابستگی کی مثال دے جا سکتی ہے لیکن اس صورت میں جب دونوں میں سے کوئی ایک فریق موجود نہ ہو تو کیا ہو گا ؟ یہ کمی محرومی کی جو شکل اختیار کرے گی، اس کا تدارک کیسے ممکن ہے ۔ ایسے جذباتی نقصانات بچے کو تن تنہا جھیلنے پڑتے ہیں، جس سے اس کی تعلیمی کارکردگی خراب ہوتی ہے ۔ وہ دوستوں میں اپنی مقبولیت کھو سکتا ہے اور اس کی ذاتی زندگی اتھل پتھل ہو کر رہ جاتی ہے ۔نفسیاتی ماہرین کے خیال میں بچے عمر کی پختگی کو پہنچ کر والدین کے بجائے دیگر متعلقین کو اس سارے جھگڑے کی جڑ سمجھتے ہیں یا کسی ایک فریق سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے قطع نظر ممکن تو یہ بھی ہے کہ ایسا کچھ غلط نہ کریں اور والدین کی امنگوں یا ضرورتوں کا احساس کر لیں ۔ خود اپنا خیال رکھنا شروع کر دیں اور زندگی کو ناکامی سے تعبیر کرنے کے بجائے صحت مندانہ خطوط پر گزارنا شروع کر دیں۔ لیکن کوئی بچہ ایک دن میں بڑا اور ذمہ دار رکن نہیں بن سکتا۔ اے والدین حضرات و خواتین اپنی زندگیوں کو طلاق جیسی سنگین شکل تک لاتے لاتے ان معصوموں پر ضرور نظر رکھیں، جن کا کوئی قصور نہیں کہ وہ آپ کے گھر میں پیدا ہوئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں